بالا بنفشئی شعاعیں آنکھوں کے لیے بہت مضر ہیں
اوزون کی پرت کو جن بنیادی اشیا سے خطرہ ہے، وہ ہیں نائٹرک، آکسائڈ، ٹائٹرس آکسائڈ، ہائلڈروکسل، ایٹامک کلورین اور ایٹامک برومائن
اوزون گیس کی پرت کی کھوج فرانسیسی ماہرِ طبیعیات ’چارلس فیبری‘ اور ’ہیزن بن‘ نے کی تھی
ن شعاعوں کی زیادہ مقدار کے رابطے میں آنے سے جسم کی جلد جھلس جاتی ہے
لیکن امریکہ نے اس کے استعمال پر پابندی نہیں عائد کی ہے۔
بالا بنفشئی شعاعوں میں بہت زیادہ توانائی ہوتی ہے
بیگن، جامن، نیلی، سبز، زرد، نارنجی اور سرخ— ان سات رنگوں میں بیگن رنگ کی آمیزش سب سے کم ہوتی ہے۔
یہ پرت زمین سے اوپر 30 سے 40 کیلومیٹر تک پر واقع ہے
اوزون کے جوہروں کے برباد ہونے سے اس میں بالا بنفشی شعاعوں کو جذب کرنے کی صلاحیت گھٹ جاتی ہے
اسپرے میں استعمال ہونے والی گیس، اوزون کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے
اس کی تشکیل سابقہ بنفشی شعاعوں کی تابکاری سے ہوتی ہے
’اسپیکٹو فوٹو میٹر‘کی مدد سے زمین کے اوپر واقع اوزون پرت کے فاصلے کی پیمائش ہوسکتی ہے۔
آفتاب کی بے رنگ روشنی میں سات رنگ کی شعاعیں نہاں ہوتی ہیں
۔ ان اشیا کے ایک جوہر میں ایک لاکھ اوزون جوہروں کو برباد کرنے کی صلاحیت ہوتی۔
یوروپ کے ممالک نے اس ممانعت کو قبول نہیں کیا تو اقوام متحدہ نے کلورو فلوروکاربن گیسوں کا استعمال بند نہیں کیا۔
ان کے اثر سے محفوظ رہنے کے لیے رنگین شیشے کا چشمہ لگانا ضروری ہے۔
نتیجتاً غیر جذب شدہ خطرناک بالا بنفشی شعاعیں راست زمین پر آتی ہیں
آخرکار 1985 میں انٹارکٹک کے خطے کے اوپر اوزون میں ایک بڑا سوراخ بن گیا، جو بالابنفشی شعاعوں کے زمین پر پہنچنے میں بڑا خطرہ بن گیا ہے
یہ آکسیجن کی ایک شکل ہے
کرۂ ارض کی اوپری پرتوں میں اس کی تشکیل آفتاب سے آنے والی بالا بنفشی روشنی کے آکسیجن پر ردعمل سے ہوتا ہے۔
یہ جوہر ایک مثلث کی شکل میں منظم ہوتے ہیں
اوزون وہ پرت ہے جو آفتاب کی بالا بنفشی شعاعوں کو زمین تک آنے سے پہلے 97 سے 99 فی صد تک جذب کرلیتی ہے